جمال خشوگی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رانا عبدالرؤف خاں
جمال خشوگی نے اس سال چار اکتوبر کو الجزیرہ ٹی وی کے شہرہ آفاق ٹاک شو پروگرام ”اپ فرنٹ” میں کھُل کر سعودی کراون پرنس شہزادہ محمد بن سلمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناممکن ہے کہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب ایک جمہوری ملک بن سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ آج سعودی عرب میں سینکڑوں کے حساب سے انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور دانشور غیرقانونی حراست میں ہیں کیونکہ اُن سب کا جُرم ایک ہی ہے کہ وہ یہ خام خیال رکھتے تھے کہ سعودی عرب میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔
جمال خشوگی سعودی عرب کے ایک مشہور علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ اعلیٰ تعیلم یافتہ تھے۔ شہزادہ محمد بن سلمان پر تنقید کی وجہ سے اُنہیں پہلے سے ہی علم ہوگیا تھا کہ اُن کی جان کو سعودی عرب میں خطرہ ہے اس لئیے اُنہوں نے ایک سال قبل ہی سعودی عرب کو خیر آباد کہ دیا اور امریکہ جا کر خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
جمال خشوگی کے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی میں بہت سے سورسز تھے جو اُسے شاہی محل اور محمد بن سلمان کے اقدامات کی خبر دیتے رہتے تھے۔ جمال نے امریکہ میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم نگار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔
سعودی کراون پرنس محمد بن سلمان پر یہ اپنے کالموں میں سخت تنقید کرتے رہتے تھے۔ یہ تنقید شہزادہ محمد بن سلمان کو بہت ناگوار گزرتی۔ شہزاد محمد بن سلمان ایک جارح فطرت، سفاک اور متنقم مزاج مشہور ہے۔ جس کی مثال اُس طاقت ور بدمست ہاتھی کی سی ہے جو اپنی طاقت کے زور پر دشمن کو اپنے پاوں سے کچل دیتا ہے۔ جب سے محمد بن سلمان کراون پرنس بنا ہے تب سے سعودی عرب نے معاملات کو گفت وشنید کی بجائے طاقت کے استعمال سے حل کیا ہے۔
یمن کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے لے کر یمن کی بے گناہ عوام کی قتل و غارت گری تک سعودی عرب نے اپنی طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا ہے۔
جمال خشوگی ایک تُرکی کی خاتون خدیجہ سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن تُرک قانون کے مطابق جمال خشوگی کو سعودی عرب کی طرف سے ایک دستاویز کی ضرورت تھی جس کے بعد ہی وہ خدیجہ سے شادی کے ضابطے کی کاروائی مکمل کرسکتے تھے۔ خدیجہ جمال خشوگی کو سعودی سفارت خانے بھیجنے سے ڈررہی تھی لیکن جمال بہت پُراعتماد تھا اور خدیجہ سے کہ رہا تھا کہ سفارت خانیمیں تعینات لوگ میرے جیسے ہی عام بے ضرر سعودی شہری ہیں مجھے اُن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن جمال خشوگی خود بھی بڑے چین اور غیر مطمئن تھے ایک انجانا خوف تھا جو اُن کے سر پر سوار تھا لیکن اس انجانے خوف کو جمال خشوگی بہتر طریقے سے سمجھ نہ پائے۔ جمال کو پتہ تھا کہ اُس کا موبائل فون باہر ہی رکھ لیا جائے گا اس لئیے اُس نے ایک احتیاطی قدم ضرور اُٹھایا جس کی بدولت شہزادہ محمد بن سلمان کی جمال خشوگی کو قتل کی ساری منصوبہ بندی بے نقاب ہوگئی۔
جمال نے اپنی کلائی پر ایپل فور سیریز کی ایک جدید گھڑی پہن لی جس پرریکارڈنگ آن کردی اوراُس ریکارڈنگ کو انٹرنیٹ کنکشن کی مدد سے سیدھا جمال خشوگی کے بنے ہوئے آئی کلاوڈ پر محفوظ ہورہی تھیجمال نے اپنی کلائی پر ایپل فور سیریز کی ایک جدید گھڑی پہن لی جس پر ریکارڈنگ نے پوری دنیا کو بتایا کہ جمال خشوگی کو کس بے رحمی اور سفاقانہ طریقہ سے قتل کیا گیا۔
جمال نے ایمبیسی کے اندر داخل ہونے سے قبل خدیجہ کو باہر انتظار کرنے کو کہا اور بوجھل قدموں کیساتھ تُرکی میں موجود سعودی سفارت خانے میں داخل ہوگیا۔
جمال خشوگی کی منگیتر تُرکی میں موجود سعودی ایمبیسی کے سامنے بیٹھی جمال کا انتظار کرتی رہتی ہے لیکن شام کا جب اندھیرا پھیلنے لگتا ہے تو وہ ایمبیسی والوں سے پوچھتی ہے تو اندر سے جواب ملتا ہے کہ جمال خشوگی تو کب کا واپس جاچکا ہے۔ خدیجہ حیران و پریشان کھڑی رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ جمال خشوگی تو باہر نکلا ہی نہیں ہے۔
جمال خشوگی جب سعودی ایمبیسی کے اندر داخل ہوتا ہے تو ایک شخص پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اُسے ایک ہال میں لے جاتا ہے جہاں پر سعودی عرب سے آئی ہوئی خصوصی پندرہ رُکنی ایک ٹیم اُس کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے۔ خشوگی کی ایپل واچ پر ریکارڈنگ آن ہوتی ہے جو انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے جمال خشوگی کے آئی کلاوڈ پر ساتھ ساتھ محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ جمال خشوگی کے ہال میں پہنچتے ہی چند لوگ خشوگی کو پکڑ کر میز پر لٹا دیتے ہیں۔ خشوگی تھوڑی بہت مزاحمت کرتا ہے لیکن پندرہ رُکنی ٹیم جو ماہر کمانڈوز انتہائی تربیت یافتہ تھی اُن کے سامنے بے بس ہوگیا۔ اسی دوران ریکارڈنگ پر سعودی قونصلیٹ جنرل پندرہ رُکنی ٹیم چیختا اور چلاتا ہے کہ یہ تم لوگ کیا کررہے ہو؟ تم لوگ مجھے بھی پھنسواو گے۔ جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان کا ایک مشہور باڈی گارڈ چلّا کرکہتا ہے کہ اگر تم زندہ سعودی عرب سے واپس آئے تو کہنا۔ ہمارے کام میں رکاوٹ مت پیدا کرو۔ سب سے پہلے جمال کے سارے کپڑے اُتار دئیے جاتے ہیں لیکن قاتل جمال کی کلائی پر بندھی ایپل کی فور سیریرز کی واچ کو اُتارنا بھول جاتے ہیں یا پھر اُسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ اُسی پندرہ رُکنی ٹیم میں سے ایک شخص جس کے پاس ایک الیکٹرانک آرا ہوتا ہے اُسے چلاتا ہے اور جمال خشوگی کی ایک انگلی کاٹ دیتا ہے۔ جمال کی چیخوں سے پورا حال گونج اُٹھتا ہے لیکن یہ سفاک لوگ جمال کی اُبھرتی ہوئی چیخوں سے بے اثر ہوکر اُس کے جسم کو زندہ ہی ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ آرا چلنے اور جمال کی چیخوں کی آوازیں آتی رہتی ہیں پھر جمال کی آواز خاموش ہوجاتی ہے اور آرا تھوڑی دیر تک چلتا رہتا ہے۔ اس دوران قونصلیٹ جنرل اس قاتل ٹیم کو بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔ اس پندرہ رُکنی ٹیم کے کچھ ارکان خون کے دھبوں کو صاف کرتے ہیں اور کچھ لوگ پلاسٹک کے بیگ میں جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑوں کو ڈالتے ہیں جنہیں بعد میں ایک تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر ساری لاش کو ایک محلول میں تحلیل کردیا جاتا ہے۔ یہ سارا کام جمال خشوگی کے سعودی ایمبیسی میں داخلے کے پندرہ منٹ کے اندر اندر کردیا جاتا ہے۔ پھر جمال خشوگی کے کپڑے اُسی کے قد کاٹھ کے ایک شخص کو پہنائے جاتے ہیں اور اُسے پچھلے دروازے سے باہر نکلتے سی سی ٹی وی میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ یہ ریکارڈنگ اس انداز سے کی جاتی ہے کہ ہوبہو ایسا ہی لگے کہ جمال خشوگی ایمبیسی میں آیا اور پچھلے دروازے سے واپس چلا گیا۔ یہ سی سی ٹی وی ریکارڈنگ محفوظ کرلی جاتی ہے۔

۔(ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں)۔

https://web.facebook.com/Dr.murtaza.kml/videos/1815525925239547/

جمال کی منگیتر فوری طور پر تُرک پولیس کو مطلع کرتی ہے اور جمال خشوگی کے چند دوستوں کو اطلاع دیتی ہے کہ جمال کو سعودیوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ چونکہ جمال کا آئی فون خدیجہ کے پاس ہی ہوتا ہے اور جب وہ آئی کلاوڈ کو کھول کر اُس میں موجود ایپل واچ کی آخری ریکارڈنگ کو سُنتی ہے تو وہ کانپ کررہ جاتی ہے۔ خدیجہ یہ ریکارڈنگ اپنے پاس محفوظ رکھ لیتی ہے اور فوری طور پر تُرک حکام کے حوالے کردیتی ہے۔ تُرکی کی ساری تفتیشی ایجنسیاں جب یہ ریکارڈنگ سُنتی ہیں تو اُنہیں یقین ہوجاتا ہے کہ جمال خشوگی کو کس بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا ہے۔ تُرک حکام تفتیش کا آغاز کردیتے ہیں توسب سے پہلے سعودی ایمبیسی سے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ مانگی جاتی ہے تو صرف دو کیمروں کی ریکارڈنگ پیش کی جاتی ہے جس کی ایک فوٹیج میں جمال خشوگی ایمبیسی کے اندر جارہا ہے اور دوسری میں جمال خشوگی پچھلے دروازے سے باہر پیدل جاتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ تُرک تفتیشی حکام جب شہر میں لگے دوسرے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ایمبیسی سے باہر نکلنے والے شخص کا پیچھا کرتے ہیں کہ کدھر جارہا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص قریبی ایک شاپنگ سنٹر میں داخل ہوتا ہے۔ پھر شاپنگ سینٹر کے واش روم میں جاکر جمال خشوگی کے کپڑوں کو تبدیل کرتا ہے، چہرے سے مصنوعی داڑھی اور میک اپ کو ختم کرکے ایک نئے حلیے میں باہر نکلتا ہے۔ تُرک حکام کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ فوٹیج جان بوجھ کو جعلی بنائی گئی ہے اور تُرک حکام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ شاپنگ سینٹر میں داخل ہونے والے شخص کی سی سی ٹی وی فوٹیج کچھ نزدیکی کیمروں سے بھی ریکارڈ ہوتی ہے جس سے تُرک حکام کو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جمال خشوگی کی بجائے کوئی اور شخص ہے۔
جمال خشوگی پورے پانچ دن پہلے سعودی ایمبیسی سے اپنی اپائنٹمینٹ لیتا ہے۔ سعودی ایمبیسی اُسے اکتوبر کی دو تاریخ کو دوپہر کے وقت بُلاتی ہے۔ تُرک حکام کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ دو تاریخ کو ہی دو سعودی چارٹر طیارے آتے ہیں جن میں یہ پندرہ لوگ سوار ہوتے ہیں۔ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد دو تاریخ کوہی یہ پندرہ رُکنی ٹیم جس خاموشی کے ساتھ آتی ہے اُسی خاموشی کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔
تُرک حکام بار بار سعودی ایمبیسی سے سی سی ٹی وی فوٹیج کا مطالبہ کرتے ہیں تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ اُس دن کیمرے خراب تھے۔
تُرکی کی تفتیشی ایجنسیاں جب مزید تفتیش کرتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دو اکتوبر کو حسب معمول ایمبیسی میں کام ہورہا تھا کہ اچانک دن گیارہ بجے ہی مقامی تُرک عملے کو کہا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر چھٹی کرلیں۔ تُرک عملہ بھی حیران ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس طرح سے پہلے کبھی وقت سے قبل ایمبیسی کو بند نہیں کیا گیا یہ آج اچانک کیوں ایسا ہورہا ہے۔
اس طرح سے حقائق کے تمام پردے ایک ایک کرکے ہٹنے لگتے ہیں اور تُرک وزیراعظم طیب اردگان پریس کانفرنس کرکے اُس پندرہ رُکنی ٹیم کے ایک ایک رُکن کو بے نقاب کردیتے ہیں۔
ان ارکان میں ایک رُکن تو محمد بن سلمان کا ذاتی باڈی گارڈ محمد سعد الزاہرانی ہے جسے محمد بن سلمان کے بہت قریب دیکھا جاتا ہے۔
اس پندرہ رُکنی ٹیم کا ایک شخص سعودی عرب میں ایک مشکوک ٹریفک حادثے میں مارا جاچکا ہے جبکہ یہ بھی سامنے آیا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے دو اہم افراد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور رائل کورٹ کی میڈیا ایڈوائزر سعود القحطانی کو شاہ سلطان نے اس معاملے پر برطرف کر دیا ہے۔ سعود القحطانی کے متعلق بھی یہ خبریں عام ہیں کہ وہ بھی گرفتار ہے۔ میں نے ذاتی طور پر جب سعود القحطانی کے ٹوئیٹر ہینڈلر کو دیکھا تو یہ بھی کچھ دنوں سے مکمل خاموش ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کا حکم محمد بن سلمان نے ہی دیا تھا اور اُسی کے قریبی لوگ اس قتل میں براہ راست ملوث ہیں۔ اس بات کا دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جمال کے قتل کے بعد تُرکی میں موجود سعودی قونصلیٹ سے فوری طور پر دو کالیں محمد بن سلمان کو براہ راست کی گئیں اور اُسے مشن کے مکمل ہونے کی خبر دی گئی۔ ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کال شہزادہ محمد بن سلمان کے بہت ہی قریبی ساتھی مھر عبدالعزیز مطرب نے کی جو اکثر بیرون ملک دوروں میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ جو ریکارڈنگ تُرک تفتیشی ایجنسیوں کے پاس ہے اُس میں واضح طور پر مھر عبدالعزیز مطرب کو عربی زبان میں یہ کہتے ہوئے سُنا جاسکتا ہے جو کہ رہے ہیں کہ اپنے باس کو بتا دو مشن مکمل ہوگیا ہے۔ یقینی طور پر یہ پیغام واضح طور پر شہزادہ محمد بند سلمان کے لئیے ہی تھا۔
سعودی عرب نے سب سے پہلے تو جمال کے قتل سے انکار کیا اور کہا کہ جمال سعودی قونصلیٹ سے بحافاظت جا چکا تھا۔ پھر جب تُرکی کے صدر طیب اردگان نے پریس کانفرنس میں ٹھوس موقف دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جمال خشوگی کے قتل کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ جمال کے ہاتھ پر بندھی ایپل کی گھڑی سارے ثبوت فراہم کردے گی۔
پھر بیرونی دُنیا کو اپنا سافٹ امیج دکھانے کے لئیے تئیس اکتوبر کو شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان ریاض میں پہلے سے قید جمال خشوگی کے بیٹے اور بھائی کو اپنے محل میں بُلواتے ہیں جہاں پرانتہائی مجبوری کے عالم میں جمال خشوگی کے بیٹے صلاح کو اپنے ہی باپ کے قاتل سے مصافحہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی ملاقات میں جمال خشوگی کے بیٹے صلاح خشوگی شاہ سلمان نے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُن کے والد کی لاش اُن کے حوالے کی جائے تاکہ وہ اُن کی آخری رسومات کو عقیدت و احترام کے ساتھ ادا کرسکیں۔ اس بارے میں محمد بن سلمان نے خشوگی فیملی کو یقین دلایا کہ وہ اُن کے ساتھ تعاون کریں گے۔
سوچنے والی بات صرف یہ ہے کہ مملکت اسلامیہ کے مرکز سعودی عرب پر کیسے سفاک لوگ حاکم بنے ہوئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے پوری دُنیا کے سامنے جو اسلام کی ایک شبیہہ پیش کی ہے وہ بہت ہی سفاک شکل پیش کی ہے۔ یہ کیسے اسلامی رہنما ہیں جو لوگوں کے سروں کو کچل کر روند کر، زندہ شخص کو پکڑ کر آرے کی مدد سے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اور اپنے مخالفین کو خفیہ طریقوں سے قتل کرکے سمجھتے ہیں کہ اُن کا اقتدار اب محفوظ ہوچکا ہے۔ مجھے ساحر لدھیانوی شہرہ آفاق نظم یاد آگئی کہ مظلوم کا خون کیسے بہتا ہے اور کیسے چیخ و پکار کرکرکے دست قاتل کی نشاندہی کرتا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ? بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

Short URL: http://tinyurl.com/y8ungmdb
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *