جعلی بینک اکاؤنٹ اور منی لانڈرنگ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مہر اقبال انجم
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ نے ملک کا برا حال کر دیا ہے، پانچ ہزار سے زائد جعلی اکاؤنٹ پکڑے گئے ہیں جو ریڑھی والے، فالودہ بیچنے والے اور رکشے والے کے نام نکلے ہیں۔ دس ممالک میں سات سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ پانچ اعشاریہ تین ارب ڈالر پاکستان سے غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے گئے ہیں، سابق وزیراعظم اور وزراء نے اقامے اس لیے لئے تاکہ وہ اپنی بدعنوانی چھپا سکیں، ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک اکاؤنٹس میں موجود پیسے ابھی چھپ نہیں سکیں گے، دوبئی اتھارٹی سے اقامہ ہولڈرز کی تفصیلات لے رہے ہیں، لیڈر شپ کی تبدیلی سے باہر کے ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ جلد بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالیں گے، ان کے اکاؤنٹس منجمد ہونا شروع ہو گئے ہیں، ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کے براہ راست کیسز ہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی سب سے بڑا کیس دیکھ رہی ہے، پہلا مرحلہ تحقیقات کا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں ریفرنسز فائل کریں گے، جعلی اکاؤنٹس پر جلد ریفرنس فائل ہونے والا ہے۔ قانون کے مطابق جن جن کے بھی نام ہیں ادارے ان کے خلاف تحقیقات کررہے ہیں۔ 10 ممالک میں منتقل کی گئی کرپشن اور منی لانڈرنگ کی رقم ڈالروں میں 5.3 ارب ڈالر بنتی ہے جو غیرقانونی طور پر باہر بھیجی جانے والی ناجائز دولت کا ایک چھوٹا سا ہے۔ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے اثاثوں کے بارے میں قوم کو اس ماہ کے آخر میں بڑی خوشخبری دیں گے۔ موجودہ حکومت پر عوامی اعتماد کی سب سے بڑی مثال گزشتہ سہ ماہی میں بیرونی ملک سے بھیجی ریکارڈ7.4 ارب ڈالر ترسیلات زر ہیں۔ بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کے خلاف حکومتی اقدامات کی وجہ سے شہباز شریف، خورشید شاہ اور فضل الرحمن کے چہروں پر گھبراہٹ ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ حکومت ان سے ایک ایک پیسہ واپس لے گی۔ دبئی میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں پاکستان چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔ جعلی اکاؤنٹ عام شہریوں کے نام پر ہیں اور کوئی مسیحا ان کے اکایونٹس میں چپکے سے پیسے ڈال دیتا ہے اور ٹی وی پر آکر باتیں بھی کرتا ہے اکاؤنٹس کے حوالے سے تمام تر تفصیلات آچکی ہیں، جو لوگ بڑھ چڑھ کر جمہوریت کا ماتم کر رہے ہیں وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس بارے میں ریفرنس جلد دائر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر اقدامات سپریم کورٹ کے احکامات اور متعلقہ قواعد وضوابط کے تحت کئے جا رہے ہیں۔اثاثوں کی واپسی کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں اثاثے منجمد کئے جاتے ہیں اور بعدازاں ان کی منتقلی کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسسیٹ ریکوری یونٹ کا کام اثاثوں کا پتہ لگانا ہے جبکہ قانونی کارروائی اور تحقیقات کے لئے متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کردار بھی قابل تعریف ہے جو اس عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ عدالت عظمٰی کی ہدایت پر بننے والی جے آئی ٹی اس وقت منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے کیس پر کام کر رہی ہے جس میں بہت جلد ریفرنس فائل ہوں گے، اگلے تین سے چار ہفتوں میں ریفرنس دائر ہو سکتا ہے۔کراچی کے نسبتاً غریب علاقے کے رہائشی عبدالقادر کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کی جانب سے طلبی کا خط موصول ہوا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ فالودہ بیچ کر گزر بسر کرنے والے عبدالقادر سے ایف آئی اے حکام نے معلوم کیا کہ ا اس کے اکاؤنٹ میں 2 ارب روپے کہاں سے آئے ؟ یہ سن کر پہلے تو وہ حواس باختہ ہوگیا اور پھر تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ اسے ایسے کسی اکاؤنٹ کا علم نہیں۔پاکستان میں حال ہی میں بے نامی اور جعلی بینک اکاؤنٹس کی کئی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ یہ بینک اکاؤنٹس جن افراد کے نام پر ہوتے ہیں۔ ان کے بجائے کوئی اور ان اکاؤنٹس کو آپریٹ کرتے ہیں۔ ایسے ہی واقعات رکشہ ڈرائیور اور سرکاری ملازمہ کے ساتھ بھی پیش آئے۔ کراچی میں ایک بینک کے سینئر افسر نے بتایا کہ کسی بھی شہری کے لئے اکاؤنٹ کھولنے کے لئے قومی شناختی کارڈ، بیرون ملک مقیم ہونے کی صورت میں پاسپورٹ، ملازمت یا کاروبار سے متعلق تفصیلی معلومات، جوائنٹ اکاؤنٹ یا کمپنی کا اکاؤنٹ کھولنے کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر، رہائش کا پتہ اور دیگر معلومات درکار ہوتی ہیں۔ کسی بھی شخص کا قومی شناختی کارڈ نہ ہونے یا پھر زائد المعیاد ہونے کے باعث اس کا اکاؤنٹ نہیں کھولا جاسکتا یا پھر پہلے سے موجود اکاؤنٹ کو اس بنیاد پر منجمد کیا جاسکتا ہے۔جعلی بینک اکاؤنٹس اکاؤنٹ کھولنے کے اس کڑے طریقہ کار اور قانون کے باوجود بھی کھولے گئے۔ ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ ملک میں بینکنگ کلچر میں بہتری نہ آنے، قوانین پر عدم اطلاق، سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ جعلی بینک اکاونٹس کھولنے کا باعث بنتا ہے۔ ان کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس جن سالوں کے دوران کھولے گئے اس عرصے میں سٹیٹ بینک کے گورنر، جن کی منظوری پر اس شخص کو متعلقہ بینک کا صدر لگایا گیا جس پر مختلف الزامات تھے، بھی ذ مہ دار ہیں، ان اکاؤنٹس کے پیچھے سیاسی دباؤ اور اثر و رسوخ کی شکایات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ماہر بینکار کے مطابق جب ان اکاؤٹس میں اربوں روپے منتقل کئے جا رہے تھے تو اس وقت مرکزی بینک کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایکسٹرنل آڈٹ یونٹ، ایف آئی اے اور نیب جیسے تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیوں نہ کیں ؟۔بینکنگ ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کے موجودہ قوانین کی روشنی میں اب شناختی کارڈ کی بائیو میٹرک سسٹم کے تحت تصدیق اور دیگر کاروباری معلومات کے بغیر اکاؤنٹ کھولنا ممکن نہیں۔ تاہم اندرون خانہ مفادات، سیاسی دباؤ اور قوانین پر عملدرآمد میں سستی اس میں ٓڑے آتی ہے جس کا فائدہ کالے دھن کو سفید کرنے والے خوب اٹھاتے ہیں۔ ان معاملات پر کراچی کی بینکنگ کورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دو درجن سے زائد ملزم پر کیس دائر ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹس کی چھان بین جاری ہے اور اس بارے میں ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی کو 2ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا ، سندھ بینک کے وکیل نے کہا اومنی گروپ کا 70 سے 80 فیصد سرمایہ بینکوں سے قرض ہے ، بینکوں سے کہا جائے کہ ملوں کا کنٹرول لے لیں، ایک ٹی وی کے مطابق اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی نے بتایا اومنی گروپ کی 3 ملیں اور ڈیفنس کی جائیدادیں بینکوں کو دینے کو تیار ہیں،نیشنل بینک کے وکیل نعیم بخاری نے کہا نیشنل بینک کو یہ چیز منظور نہیں، چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق سے پو چھا جے آئی ٹی رپورٹ کب تک مکمل ہوگی ؟جے آئی ٹی کے سربراہ نے کہا ایک ماہ کا وقت دے دیں، چیف جسٹس نے کہا 2ہفتے دے رہے ہیں،مجید خاندان کو بینکوں سے لین دین طے کرنے کے لئے بہت وقت دے دیا ،اب بینکوں کے مالکان اور عبد الغنی مجید کو بلا کر دیکھ لیتے ہیں جس نے ضمانت پر نہیں رہنا اس کو جیل بھیج دیں گے ،چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر متعلقہ بینکوں کے اعلیٰ حکام اور عبدالغنی مجید کو طلب کر لیا ، بینکوں اور ریاستی اداروں نے بینکوں کے کھاتہ داروں کو ایک بار پھر خبردارکیاہے کہ وہ جعلی فون کالز پر اپنے بینک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ اور دیگر معلومات کسی صورت میں نہ دیں۔اس بارے میں عوام کو آگاہی اس لئے دی جارہی ہے کہ بینکوں اور دیگر اداروں کی بجائے جعلی کالوں کے ذریعے عوام سے مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے بینک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ نمبر اور خاندان کے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں اور ان کو بینکوں سے ان کی جعلی طریقے سے رقوم نکالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔عموماً یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ عام شہریوں سے اداروں اور بینکوں کا نام استعمال کرکے ان سے یہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ بینکوں اور اداروں کی طرف عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ان نوسربازوں کو اپنے بینک اکاؤنٹ اور شناختی کارڈ نمبر نہ دیں تاکہ وہ کسی واردات کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔بینکوں کو بھی چاہئے کہ اکاؤنٹ ہو لڈرز اور عام شہری کو اپنا اکاونٹ چیک کرنے کے لئے آسان رسائی دی جائے،جس طرح ایک ویب سائٹ یا ایس ایم ایس کے ذریعے چیک کیا جا سکتا ہے کہ ایک شناختی کارڈ پر کتنی سم ہیں اسی طرح ایک ایپ تیار کی جائے یا کوئی اور طریقہ اپنا یا جائے جس سے شہری مستفید ہو سکیں اور ان کے نام بننے والے جعلی اکاؤنٹ جن کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا ان سے جان خلاصی ہو۔امید ہے چیف جسٹس آف پاکستان،حکومت اور بینک مالکان اس طرف بھی توجہ دیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yco9t4ol
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *