تضاد

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ارم ہاشمی
وہ صبح نو بجے گلی کے نکڑ کا ہوٹل کھلتے ہی ایک کرسی پر آکر جم گیاتھا،اور شام ہونے تک وہ اِسی بے فکری سے بیٹھا رہا تھا جیسے اُسے کوئی کام نہ ہو۔وہ کبھی خوش شکل اور صحت مند رہا ہوگا مگر اَب تفکرات نے اُس کی صحت کو کھا لیا تھا، جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گیا تھا، رنگ جل کر سیاہ ہو گیا تھا، ہر وقت کی سوچ اور فکر نے پیشانی کی لکیروں کو گہرا اور نمایاں کر دیا تھا، آنکھیں بے نور تھیں، وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو تنہائی، ناکامی، بدنصیبی اور بدحالی کا شکار ہوتے ہیں، وہ جب بولتا تو الفاظ بے ربط اور خیالات منتشر ہوتے، خاموشی کی کیفیت میں بلا اِرادہ پاؤں کی انگلیاں ہلاتا رہتا اور ہاتھ کی انگلیوں کو چٹخاتا رہتا۔ وہ اِرد گرد سے بے نیاز اپنی دنیا میں گُم تھاکہ اَچانک ہوٹل کے احاطے سے باہر شور اٹھا۔
مارو مارو،سر گنجا کر دو۔۔۔۔ہوٹل میں بیٹھے لوگوں نے یہ سنتے ہی گھبرا کر باہر سڑک کا رخ کیا تھا، سامنے میونسپل پارک سے لوگوں کا ہجوم باہر آرہا تھا، جیب کترا کسی کی جیب پر ہاتھ صاف کرتا ہوا پکڑا گیا تھا، بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر ایسے واقعات عام ہیں، یہ شہر کی بھری پُری سڑک تھی، پارک میں آنے جانے والوں کی چہل پہل تھی، دکانوں پر لوگوں کا ہجوم تھا، پندرہ منٹ گزرچکے تھے مگرشور اَبھی تک تماش بینوں کو کھینچ لا رہا تھا، یہ جاننے کے لئے کہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں، ہوٹل میں بیٹھے آدمی نکل نکل کر باہر جا رہے تھے، جو نہیں گئے تھے، اُنھوں نے بھی بڑی بے چینی سے باہر سے آنے والوں سے پوچھا تھا، کہ یہ کیسا شور تھا لیکن وہ اِسی طرح خاموشی سے بیٹھا ہوٹل کی دیوار پر ٹنگی ہوئی تصویر دیکھتا رہا۔اس تصویر کو اُس نے صبح سے کئی بار دیکھا تھا،پچاس پھول لگے تھے اور اِن پھولوں پر چودہ تتلیاں اُڑ رہی تھیں۔تصویر میں ایک لڑکی پتھر کی نوکیلی سِل پر یوں بیٹھی تھی جیسے اَپنے اِرد گرد پھیلی جھاڑیوں کی طرح اُگ آئی ہو،عین سامنے درخت پر دو پرندے بیٹھے تھے،ایک پرندے کا رنگ سفید تھا اور دوسرے کا ہرا،دُور کہیں پہاڑ نظر آرہے تھے اور نیلگوں آسماں، اِس کے علاوہ اُس نے یہ بھی گنا تھا کہ اِس ہوٹل میں کتنی کرسیاں ہیں اورکتنی میزیں ہیں، ایک وقت میں کتنے آدمی بیٹھے ہیں،کتنے لوگ چائے پی رہے ہیں اور کتنے لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں، دیواروں پر کتنے لیمپ ہیں، چھت سے کتنے پنکھے لٹک رہے ہیں۔اَچانک ہوٹل کے ویٹر نے اَخبار اُس کے سامنے لاکر رکھ دیا، اُس نے ایک نظر ویٹر پر ڈالی اور بے دلی سے اَخبار کی خبریں پڑھنے لگا،اَخبار کی سرخیاں اس کی نظروں میں گھومنے لگیں، بس کا بھیانک حادثہ۔۔۔ پچیس مسافر ہلاک، ٹرین شدید طوفان کی نذر۔۔۔ دو سو سے زیادہ مسافر لاپتہ۔ شہر کا بلند ترین پلازہ گر گیا۔۔۔۔ نوے لاشیں نکالی جا چکی ہیں، بقیہ کی تلاش جا ری ہے۔ ۔۔۔معروف بینک میں ڈکیتی ۔۔۔ڈاکو فرار۔۔۔لیکن اُس کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔پریشانی کا کوئی تاثر نہ تھا۔۔ وہ کسی کے لئے فکر مند نہ تھا۔۔۔وہ لاشعوری طور پر کسی اور دنیا میں گم تھا۔پانچ سال اِدھر کی بات ہے،تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اُس نے جاب کے لئے اَخبارات میں اِشتہارات دیکھنے شروع کر دیئے، اِشتہار اور اِنٹرویو کے چکر میں وہ دَربدر پھرنے لگا، اِس چکر میں اُسے چکر آنے لگے،آنکھوں میں اَندھیرا چھانے لگا، پاؤں لڑکھڑانے گے،مایوسیاں دِل و دماغ میں ڈیرہ ڈالنے لگیں، کئی برس بیت گئے،اُس نے لوگوں سے ملنا جُلنا بہت کم کر دیا تھا،وہ گھر سے باہر نکلتا تو پاس پڑوس کے بڑے بوڑھے اُس کی بے کاری پر طرح طرح کے فقرے کستے،اُن کی آنکھیں اُس کی جانب زہر میں بجھے طنز کے تیر چھوڑتیں، اُسے محسوس ہوتا کہ وہ بے کار نہیں کوئی پاگل ہے جسے دیکھتے ہی اِدھر اُدھر سے پتھر برسنے لگتے ہیں، یہ وہی بڑے بوڑھے تھے جنہوں نے کبھی اُسے اپنی آنکھوں پر بٹھایا تھا، جن کی زبانیں اُس کی تعریف کرتے نہ تھکتی تھیں، وہ جب لوگوں کے اِس متضاد روّیے پر غور کرتا تو اُس کو چہارسُو دھواں اٹھتا محسوس ہوتا،ایک ایک چیز بے معنی لگنے لگتی، وہ بنجر اور پتھریلی زمین کے جیسے تھا جو ہریاول کے سپنے دیکھنا چھوڑ دیتی ہے۔گھر میں اُس کے علاوہ اُس کے ما ں باپ، بہن بھائی بھی تھے لیکن وہ کسی سے بات نہ کرتا، یوں جیسے وہ اُن سب سے نالاں ہو، بس ماں کی گود میں سر چھپاکر اپنی بد قسمتی پر رویا کرتا، وہ اُسے صبر کی تلقین کرتیں اورخود بھی روتی جاتیں، بعض اوقات رونے سے اُن کی طبیعت بگڑ جاتی، اور اُنھیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ اُس نے ماں سے بھی د کھڑا کہنا بند کر دیا، خود میں گھلتا رہتا۔آج صبح سے وہ اِس ہوٹل میں آکر بیٹھ گیا تھا،اوراِ س وقت جب کے دن کے گیارہ بج رہے تھے،اَچانک ایک آدمی اُس کو گھر سے بلانے آیا ’’تمہارے ماموں آئے ہیں ، گھر پر بلا رہے ہیں، وہ شام کی گاڑی سے لوٹ جائیں گے‘‘اُس نے پیغام چپ چاپ سن لیا تھا اور پھر گننے لگ گیاتھا کہ میز کے شیشے پر کتنی خراشیں پڑی ہوئی ہیں۔کتنی میزوں پر چائے کے کپ رکھے ہیں اور کتنی میزیں خالی ہیں۔وہ بلاوے پر بھی گھر نہیں گیا تھا مگرکچھ ہی لمحوں بعد اُسے ایک بری خبر سننے کو ملی،اُس کے ایک قریبی دوست کو حادثہ پیش آگیا تھا، اور اُسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا تھا، جن صاحب نے اُسے خبر دی تھی وہ خود بہت گھبرائے ہوئے تھے، اور ہسپتال جانے کی جلدی میں تھے، وہ ہوٹل میں صرف اِس لئے آئے تھے کہ اُسے حادثے کی اِطلاع دیتے جائیں، اُسے بھی چاہیے تھا کہ خبر سنتے ہی ہسپتال کی طرف چل دیتا، لیکن اُس کے چہرے پر فکر کی کوئی لکیر نہیں اُبھری،پیشانی پر بَل نہیں پڑا،دِل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی، سماعت نہیں لرزی،دِماغ ماؤف نہیں ہوا،اُسے اَپنے آپ پرتعجب ہوا، اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کے حواس بے کار ہو گئے ہیں، لیکن وہ بیٹھا رہا جیسے کچھ ہواہی نہیں۔سارا دِن گزر گیا،وہ چپ چاپ لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا رہا۔اِس وقت شام کے پانچ بج رہے تھے ،اُس کا چھوٹا بھائی ہوٹل میں داخل ہوا۔خوشی اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔’’ارے بھیا!! آپ یہاں بیٹھے ہیں،آپ کو نوکری مل گئی ہے اورگھر میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں ‘‘ ’’کہاں ؟کیا؟نوکری؟‘‘’’’ہاں ہاں آپ لاہور گئے تھے نا! اِنٹرویو دینے،انہوں نے تقرری کا خط بھیجا ہے‘‘’’سچ!!تم سچ کہہ رہے ہو نا؟‘‘’’تو کیا میں آپ سے جھوٹ بولوں گا؟ شام کی ڈاک سے چٹھی آئی ہے‘‘نوکری کا سنتے ہی خوشی سے اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے، پھر اُسے کچھ یا د آیا اورو ہ جلدی سے کرسی سے اُٹھتے ہوئے بولا ’’لوپیسے! میرا چائے کا بل دے دینا‘‘، خوشی میں اُسے یہ بھی یاد نہ رہاتھا کہ اُس نے صبح سے چائے پی ہی نہیں،’’میں ذرا ہسپتال جا رہا ہوں۔ فیصل کا کار سے حادثہ ہو گیا ہے، پتہ نہیں وہ کیسا ہے۔ اگر مجھے گھر واپسی میں دیر ہو جائے تو کہہ دینا کہ فکر نہ کریں، اور ہاں ماموں سے کہنا کہ وہ آج نہیں کل جائیں گے‘‘جب وہ ہسپتال کے لئے رکشہ پر بیٹھ رہا تھا ۔تو اُس کی نظر حامد پر پڑی جو صبح اُسے میونسپل ہال لے جانے پر بضد تھا،جہاں کوئی تقریب ہونا تھی، اُس نے حامدکوز بردستی اَپنے ساتھ رکشے پر بٹھالیا اور پوچھنے لگا’’ہاں تو سنا یار! صبح تقریب کیسی رہی ؟‘‘

Short URL: http://tinyurl.com/y4jd6b6m
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *