انمول رشتے

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار: سعدیہ انعم 
نہال۔۔۔۔۔ ایک بات کرنی تھی آپ سے
جی کہو
وہ دونوں یونیورسٹی میں ایک درخت کے نیچے موجود بینچ پر ذرا فاصلے سے آ بیٹھے تھے. 
مہروش : دیکھو نہال میری بات کا غلط مطلب مت نکالنا ۔ میں جو بھی کہنے جارہی ہوں اس پہ غور ضرور کرنا ۔
نہال : ایسی کیا بات ہے کھل کے کہو جو بھی کہنا ہے ۔۔۔
(اس نے ہاتھ میں پکڑے نوٹس کو بینچ پر رکھتے ہوئے تجسس سے کہا)
مہروش : نہال میں چاہتی ہوں شادی کے بعد ہم الگ گھر میں رہیں۔ جہاں بس میں ہوں اور آپ ۔ تم تو جانتے ہو مجھے،، میں ایک آزاد ماحول میں پلی بڑی ہوں اور آنٹی کافی گھریلو اور سیلقہ شعار ہیں مجھے کہہ دیا تو ۔۔۔
نہال : تو کیا مہروش؟ (وہ حیرت سے اسے دیکھ کر بولا )
مہروش : تو یہ کہ تم بس کچھ کرو میں الگ گھر چاہتی ہوں اور یہ میرا حق ہے (اس نے نہال کے چہرے کے بگڑتے تاثر کو دیکھ کر جلدی جلدی اپنی بات ختم کی اور نظریں چرا کر فاصلے پر بیٹھے لڑکے لڑکیوں کے گروپ کو دیکھنے لگی) ۔
نہال : تم جانتی ہو مہروش کہ کیا کہہ رہی ہو؟
مہروش : ہاں جانتی ہوں ۔
نہال : نہیں جانتی 
مہروش : کیا نہیں جانتی؟ 
نہال : میں چلتا ہوں اس ٹاپک پر کل بات کرتے ہیں(نوٹس ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اس نے اپنا بیگ کاندھے پر لٹکایا اور اٹھ کھڑا ہوا)۔
مہروش : کہاں جارہے ہو میں نے لنچ نہیں کیا۔ تمھارے بغیر میں صرف سنڈے کو لنچ کرتی ہوں معلوم ہے نا تمھیں ؟(وہ بھی اسکے ساتھ ہی پیچھے کھڑی ہو کر اپنا بیگ بازو میں ڈالتے ہوئے بولی )
اور میری ماں پورا ہفتہ میرے بغیر لنچ کرتی ہے اور صرف سنڈے کو میں انکے ساتھ لنچ کرتا ہوں اور تم چاہتی ہو کہ جو ایک دن میں ان کے ساتھ لنچ کرتا ہوں شادی کے بعد وہ بھی نصیب نہ ہو انھیں؟(وہ پلٹ کر اسکے قریب آکھڑا تھا اور اس سے اپنے سوال کا جواب چاہتا تھا)
دیکھو نہال تم بات سمجھ نہیں رہے ہم جائیں گے نا ملنے۔۔۔ پھر آنٹی کونسا اکیلی ہیں۔۔۔ انکل ہونگے نا ساتھ۔۔۔ کتنے لڑکے شادی کے بعد الگ رہتے ہیں ۔۔اس میں ایسا بھی کیا غلط ہے ۔۔۔جو تم اتنے ہائپرہورہے ہو؟(الفاظ ڈھونڈتے ہوئے بمشکل اس نے جواب دیاتھا)
ہاں رہتے ہیں الگ۔ ۔۔مگر کتنے بیٹے ساتھ بھی تو رہتے ہیں۔۔ اور پھر میں کیوں چھوڑوں اپنے ماں باپ کا گھر؟ (اسکے لہجے کی تلخی مہروش کے مزاج کو سخت ناگوار گزری) ۔
میں بھی تو چھوڑ کر آرہی ہوں اپنے ماں باپ کو؟ ہم لڑکیاں چھوڑ کر آسکتی ہیں ۔۔۔توتم لڑکے کیوں نہیں چھوڑ سکتے؟ (وہ جوابا غصے میں کہتی ہوئی واپس بینچ پر بیٹھ گئی) ۔
کیونکہ تم لڑکیوں کی ذمہ داری میں ماں باپ کو کما، کر ان کی خدمت کرنا نہیں کیونکہ تم صرف اسلئے کسی گھر میں پیدا ہوتی ہوکہ کچھ عرصہ وہاں رہو۔۔۔ اور زندگی گزارنے کے کچھ طور طریقے سیکھو ۔۔۔اسکے بعد جسکی امانت ہو اسکو لوٹائی جاسکو۔
اور ہم لڑکے ہماری ذمہ داری تمھاری ذمہ داریوں سے الگ ہے ۔۔ہمیں بیوی بچوں کے ساتھ والدین کاخیال رکھناہوتا ہے ۔۔کیونکہ اللہ نے ہمیں جسمانی طور پر عورتوں سے مضبوط پیدا فرمایا ہے۔۔ اور بات الگ گھر کی بھی نہیں ہے۔۔۔ بات تمھاری اس سوچ کی ہے جس نے آپ کو اس مطالبے پر اکسایا ۔۔(وہ اسکے سامنے کھڑا دونوں ہاتھ باندھے بہت تحمل سے اپنی بات کہہ کر چپ ہوگیا تھا) 
میری سوچ اتنی ہی بری ہے تو مت کرو مجھ سے شادی ۔۔۔میں اتنی ہی بری تھی تو کیوں کی منگنی؟ منع کر دیتے۔۔۔ ٹھکرا دیتے محبت میری ۔(وہ روہانسی ہو کر شکوہ کرتے ہوئے بولی) تو وہ دوبارہ اسکے ساتھ آبیٹھا اور ایک لمبی سانس لیتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔ 
یہ سچ ہے کہ تم سے منگنی کا فیصلہ میں نے یہ سوچ کر کیا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور جو مجھ سے محبت کرتی ہے وہ ہر اس بات کا خیال رکھے گی جس سے مجھے تکلیف نہ ہو۔۔۔ تو پھر یہ کیسی محبت ہے تمھاری مہروش؟ کہ مجھے میرے خاص رشتوں سے جدا کرنا چاہتی ہے ؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں؟ 
جانتی ہو میرے والدین نے مجھے کیسے پڑھایا لکھایا؟ انکے ہاتھ کے چھالے آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ویسے ہی نئے ہیں جیسے آج کی یہ تپتی دھوپ۔۔۔ اور انکا کردار میری زندگی میں ویسا ہی ہے جیسا یہ شجر۔۔۔ اس دھوپ کے ہوتے ہوئے میرے لئے سایہ میسر کرتے ہوئے ادا کر رہا ہے ۔۔
تم کہتی ہو میں اپنے ماں ،باپ کو چھوڑ دوں؟. 
ایک بار ماں سے کہا تھا لیپ ٹاپ چاہئے ،،،کچھ دن بعد گھر میں کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا ۔ کہنے لگی پڑوس میں کسی کی شادی ہے تو جہیز کے کپڑے سلنے کو آئے ہیں ۔ایمرجنسی میں دینے ہیں کپڑے۔۔۔ تو کچھ دنوں میں سی کے بھیج دئیے گئے ۔مگر محلے میں کئی ماہ تک کوئی شادی نہ ہوئی ۔۔۔لیکن کچھ ماہ کے بعد میرا لیپ ٹاپ آگیا ۔۔۔۔جو مما، بابا نے پیسے جوڑ جوڑ کر میرے لئے خریدا تھا ۔۔۔
اور تم کہتی ہو میں ان سے الگ ہوجاؤں ۔۔۔۔۔؟(اس نے نم آنکھوں سے مہروش کے سامنے پھر سے کہا)
۔۔۔۔ تو وہ اسکے آنسوؤں سے یکدم گبھرا گئی ۔
شادی کے دن جتنے قریب آرہے ہیں مما میرا اتنا زیادہ خیال کرنے لگی ہیں ،کل تو حد ہی ہوگئی،،مما کی گود میں سر رکھتے ہی سوگیا ۔۔۔آنکھ کھلی تو مما رو رہی تھیں بہت اصرار پر صرف اتنا ہی کہہ پائیں مما،،
” پتر شادی کے بعد میری گود بھول تو نہیں جائے گا نا۔۔۔۔”؟(کتنا درد تھا مماکے لہجے میں۔۔۔ کتنی تکلیف اورپیارتھا۔۔ ۔!
اب میں سمجھا کہ آخر ماں ،باپ کو کس بات کا ڈر ستا رہا ہے۔۔۔۔ کیوں وہ اتنے پریشان سے رہنے لگے ہیں ۔۔۔۔!
انھیں بھی یہی فکر ہے کہ ایک بڑے گھر کی لڑکی پتا نہیں انکے ساتھ رہ بھی سکے گی یا نہیں۔۔۔۔! کہیں ان کا بیٹا انھیں بھول نہ جائے.۔۔!
تمھیں کیا لگتا ہے کہ شادی کے دن آتے ہی صرف لڑکی کے ماں باپ اداس ہوتے ہیں؟ نہیں مہروش میرے ماں باپ جیسے کئی لڑکوں کے ماں باپ بھی اداس ہوتے ہیں جن کا واحد سہارا، جن کی ساری کائنات صرف انکا اکلوتا بیٹا ہوتا ہے ۔۔۔۔میں انھیں نہیں چھوڑ سکتا چاہے اسکے لئے مجھے کچھ بھی چھوڑنا پڑے۔
(اس نے مضبوط لہجے میں کہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور پھر مہروش کو دیکھا۔۔۔)جو اسے حیرانی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
نہال :کچھ کہو گی نہیں؟ ؟
مہروش : نہیں۔۔۔۔۔۔پوچھوں گی ۔(اس نے شرارتی لہجہ میں بولا)
نہال : کیا۔۔۔۔؟
مہروش : یہی کہ میں کتنی خوش نصیب ہوں ۔۔۔۔۔!
نہال : مجھے تم سے محبت ہے مگر ماں باپ میری محبت کے ساتھ میری عبادت بھی ہیں ۔۔۔جس دن تم میرا آدھا دین مکمل کردو گی تم بھی عبادت بن جا ؤگی ۔۔۔پھر میِں تمھیں بھی کسی صورت نہیں چھوڑ پاؤں گا۔۔ چھوڑنا تومیں اب بھی نہیں چاہتا۔۔۔ اگرتم میرا ساتھ نہیں دو گی تو میں اکیلا ضرورپڑ جاؤں گا ۔۔ (مضبوط اعصاب کا مالک نہال اسکے سامنے اپنے جذبات کو الفاظ دینے کی کوشش کرتے ہوئے بولا تھا) ۔ 
مہروش : مجھے معاف کردو نہال ۔۔میں پھر کبھی الگ گھر کی بات نہیں کروں گی میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔
مہروش شرمندہ سی اس سے اپنے مطالبے کی معافی مانگتی ہے 
نہال ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتا ہے اور پھر دونوں کینٹین کی طرف بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔
********
ثانیہ اک بات تو بتا؟ 
ہاں پوچھو مہروش؟ 
کیا تمھارے ممی، پاپا بھی تم سے اسی طرح پیارکرتے ہیں جس طرح نہال کے کرتے ہیں ؟
ثانیہ نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر یکدم اسے دیکھا 
یہ کیسا سوال ہے؟ 
بتا نا پلیز۔۔۔۔ کیا تم بھی اپنی ممی کی گود میں سر رکھ کر سوتی ہو؟ 
کیا تمھارے پاپا نے تمھیں پڑھانے کے لئے مشکلیں اٹھائی ہیں؟ 
وہ اسکے روبرو بیٹھی بہت دلچسپی سے اس سے سوال پر سوال کر رہی تھی 
ہاں ! کبھی کبھی۔۔۔ جب بہت تھک جاتی ہوں یا اپ سٹ ہوتی ہوں۔۔۔ تو ماں سے گلے لگ کر رو بھی لیتی ہوں اور کبھی کبھی پاپا کے گلے بھی لگ جاتی ہوِں اور پاپا کا بزنس تمھارے سامنے ہے۔۔۔ مشکلیں تو نہیں کہہ سکتی البتہ ۔۔۔۔۔محنت تو وہ میرے اور میرے بہن بھائیوں کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ 
یہ انکا پیار ہی تو ہے مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ 
ثانیہ نے اپنی بات کمکمل کرتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔!
اچھا! پر میرے ممی پاپا کو شاید کبھی ٹائم ہی نہیں ملا ۔۔۔۔۔کہ مجھے ٹائم دیتے یا پھر مما مجھے گود میں سلاتی۔۔۔۔۔ثانیہ۔۔! انھوں نے ہمیشہ اپنی مصروف زندگی کو اہمیت دی ،ممی کے لئے انکی این جی او اور پاپاکے لئے انکا بزنس ہی اہم رہا۔۔۔ بھائی اپنی زندگی میں مگن۔ ۔۔مجھے تو ممی کے پہلو کی خوشبو کی بھی پہچان نہیں ۔۔۔۔شاید اس لئے میں نے نہال سے ۔۔۔۔(وہ کہتے کہتے اچانک خاموش ہوئی تو ثانیہ سیدھی ہو بیٹھی اور اس کے ادھورے جملے کی ادھوری بات دھراتے ہوئے بولی )
نہال سے کیا مہروش؟ کیا کہا تم نے اس سے۔۔۔بتا؟ 
یہی کہ شادی کے بعد ہم الگ گھر میں رہیں گے۔۔۔۔(مہروش نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا)
اوہ مائی گاڈ ! مہروش تم نے یہ بات نہال سے کہہ دی؟ (ثانیہ نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے یقینی سے پوچھا) 
ہاں تو مجھے کیا پتا تھا اتنی سی بات کو وہ اتنا سیریس لے گا۔۔۔۔ کہ رو جاے گا .
واٹ؟ آر یو شیور؟ وہ رو پڑا تھا؟ 
(وہ مزید حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی )
ہاں نا! یہی بات ابھی تک پریشان کر رہی ہے۔دو سالوں میں پہلی بار اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں میں نے۔۔۔۔ اب تو مر جاؤں گی لیکن کبھی دوبارہ وہ بات نہیں کروں گی ۔
صوفے سے اپنی پشت لگائے وہ عادتا دانتوں سے اپنے ناخن دبانے لگی 
تو بات کی ہی کیوں تھی بھئی ؟ کس نے کہا تھا اتنی فضول بات کرنے کو ؟ جی میں تو آرہا ہے دو چماٹ لگاؤں تمھیں ۔۔۔ یار بندہ مشورہ ہی کر لیتا ہے میں مرگئی تھی کیا؟ 
ثانیہ نے اسے خوب سناتے ہوئے جملے کسے تو وہ منہ بسور کر رہ گئی ۔۔۔۔
پلیز اب رونا نہیں پہلے یہ بتا نہال کا کیا ری ایکشن تھا۔۔۔ جواب بھی دیا اس نے،،، کہ نہیں؟ 
ویسے تم نہال کو مجھ سے بھی زیادہ جانتی ہو۔۔۔ وہ جواب کے موڈ میں تھا بھی نہیں۔۔۔ ۔ لیکن اس نے مجھے والدین کی اہمیت اور عزت کا احساس دلایا۔۔۔ میری سمجھ میں بھی آگیا میں نے سوری کرلی۔۔
شکر ہے اتنی عقل ہے تم میں ۔۔۔۔ ورنہ بی بی کبھی کبھی تم اسے کھو دینے میں کسر نہیں چھوڑتی ہو۔۔۔ اور اب کبھی یہ سوال تمھارے ذہن میں آئے بھی نا۔۔۔۔ تو میرے پاس آجانا ایسے واش کروں گی تمھارا مائنڈ ۔۔۔۔۔کہ یاد رکھو گی ۔
ثانیہ نے منہ کھول کھول کے اسکو واضح دھمکی دی تو وہ اسے گھورنے لگی ۔
تم دوست ہو کہ دشمن؟ (مہروش نے بھنویں چڑھاکر پوچھا)
بہترین دوست ۔۔۔۔ تبھی غلطی پر ڈانٹ رہی ہوں ۔۔۔دیکھو ! مہروش نہال خاص اپنی ماں سے بہت محبت کرتا ہے اسے کبھی اس بات کو لے کر آزمائش میں مت ڈالنا ورنہ ہوسکتا ہے تم اسے کھو دو ۔۔۔
ثانیہ اسکا ہاتھ تھامے دھیمے لہجے میں اسے سمجھا رہی تھی ۔مہروش اسکا ہاتھ چھڑائے کھڑی ہوئی تو وہ بھی ساتھ کھڑی ہوگئی ۔۔۔
ایسے نہیں بولو ثانیہ ۔۔میں اسے کسی قیمت پر نہیں کھو سکتی۔۔۔ میں مانتی ہوں میں بہت احمق ہوں۔۔۔ کبھی کبھی بہت غلط مطالبہ کر جاتی ہوں۔۔۔ غلط غصہ کر جاتی ہوں۔۔۔ مگر میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔ ۔۔اسے نہیں کھو سکتی۔
وہ بے چینی سے چلتی ہوئی کھڑکی کی طرف آگئی تھی اور باہر کی طرف دیکھتے ہوئے لمبے سانس بھر رہی تھی جیسے اسکی سانس کہیں اٹک گئی ہو۔
ثانیہ نے اسے بغور دیکھا کیونکہ نہال کے کھونے کے خیال سے ہی اس کی سانس یونہی اٹک جاتی ہے ۔۔۔۔
اسٹڈی ختم ہوچکی تھی کافی مشکلات کے بعد آخر وہ دن آہی گیا جب مہروش کا نام نہال کے نام کے ساتھ جڑنے جارہا تھا۔ 
مہروش ایک امیر باپ کی بیٹی تھی جبکہ نہال ایک غریب باپ کانہایت ہی فرمانبرداراور اکلوتا بیٹا،،مگر نہال نے اپنی محنت اور تعلیم کے میدان میں اچھی کامیابی کے بعد ایک بہت اچھی گورنمنٹ نوکری حاصل کر لی تھی ۔۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بھی وہ مہروش کے باپ کے اسٹیٹس کے برابر نہیں تھا ۔
چونکہ نہال سے شادی کی خواہش کا اظہار مہروش نے خود اپنے گھر والوں سے کیا تھا اور انکے علم میں یہ بات بھی تھی کہ اسوقت نہال کو مہروش میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ بلکہ یہ انکی بیٹی کی یکطرفہ پسند کا سوال تھا اور وہ جانتے تھے کہ نہال کی نظر انکی دولت پر نہیں ہے ۔ مہروش کے بہت اصرار پر جب نہال کے والد صاحب نے اسے آفس بلا کر پوچھا کہ کیا تم میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو اسکا ریکشن دیکھ کر وہ خود بھی سوچ میں پڑگئے ۔۔۔
******
آپ نے بلایا مجھے؟ کیا میں آپکو جانتا ہوں؟ (نہال نے شاندار آفس کے نہایت قیمتی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اس شخص سے سوال کیا جو پیٹھ اسکی طرف کئے بیٹھا سگھار سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔
ہاں میں نے بلایا ہے تمھیں ۔۔۔بیٹھو! 
نہال کی آواز پر رخ اسکی طرف موڑے وہ اسے بیٹھنے کا کہتا ہے ۔نہال انھیں ایک نظر ڈال کر دیکھتا ہے اور پھر سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ کر انکے بولنے کا انتظار کرتا ہے. ۔
تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں
میرا نام ملک امتیاز ہے اور مہروش میری بیٹی ہے. ۔۔
لیکن مجھے یہاں بلانے کا مقصد؟ (انکے تعارف پر نہال نے فورا سوال کیا )
مجھے پتا چلا ہے کہ تم میری بیٹی کو پسند کرتے ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟. 
کیا؟ ۔۔۔۔کیا کہا آپ نے؟(نہال کو لگا جیسے اس نے کچھ غلط سن لیا ہو)
دیکھیے ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم ساتھ پڑھتے ہیں اچھے کلاس فیلوز کی طرح آپس میں بات چیت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
تو تمھیں میری بیٹی پسند نہیں؟ 
یہ کیسا سوال ہے؟ میں آپکو بتا چکا ہوں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ چاہیں تو مہروش سے پوچھ لیں.
میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہئے۔
نہال نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر کی راہ لی۔
مہروش نے ہی مجھے تمھارے بارے میں بتایا ہے ۔۔
یہ وہ جملہ تھا جس نے نہال کے چلتے قدم روک لئے اس نے پلٹ کر بے یقینی سے ملک امتیاز کو دیکھا۔
ہاں اسی نے مجھے تم سے بات کرنے کو کہا ہے ۔ 
اگر میں کہوں کہ تم میری بیٹی سے شادی کر لو؟ 
ملک امتیاز کی ناقابل یقین بات سن کر وہ انکے عین سامنے آجاتا ہے۔۔۔
نہال : تو معذرت کے ساتھ میری طرف سے انکار ہوگا ۔۔۔
ملک امتیاز: مگر کیوں؟ کیا کمی ہے مہروش میں ۔۔۔۔سب کچھ تو ہے اس کے پاس ۔۔۔پھر انکار کرنے کی وجہ؟ 
نہال : کمی ہر گز نہیں ہے ۔۔۔۔آپکو چاہئے کہ آپ اسکے لئے اس کے معیار کا خاندان تلاش کریں ۔
ملک امتیاز : مگر وہ تمھیں پسند کرتی ہے اور میں نے آج تک اسے اسکی پسند کی ہر چیز دلائی ہے چاہے وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو ۔
نہال : چیز میں اور انسان میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔ میں بکا نہیں ہوں ایک خوددار انسان ہوں۔۔۔ جسکی خودداری دنیا کا کوئی بھی امیر انسان نہیں خرید سکتا ۔۔۔چلتا ہوں ۔۔۔کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت ۔۔۔
نہال کے جانے کے بعد ملک امتیاز کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ نہال سے بھرپور متاثر ہوئے تھے۔۔۔
**********
پہلے تو نہال بھی راضی نہیں تھا مگر جب دونوں خاندانوں نے ان دونوں کو ملانے کی ٹھان لی اور ہر طرف سے مہروش کے حق میں سفارشیں ہونے لگیں تو نہال نے بھی والدین کے مشورے کو اہمیت دی۔۔
******
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوچکی تھیں وقت کی ساری رعنائیاں سمٹ کر جیسے اسکے سرخ آنچل میں آسمائی تھیں ۔۔ وہ کبھی اپنی ہتھیلی کے کنگن کو دیکھتی کبھی سیج پر بکھری گلاب کی پتیوں کو انگلیوں کے پوروں سے مسلنے لگتی ۔۔۔
دروازے کی دستک پر وہ سمٹ کر سیدھی ہو بیٹھی تھی ۔۔
اسکے خوابوں کا شہزادہ مہرون شیروانی میں ملبوس آج حقیقت میں اسکے بالکل سامنے آبیٹھا تھا ۔۔اور وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔
نہال : ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ لڑکیاں تو دلھن بنی شرماتی ہیں تم آنکھیں پھاڑ رہی ہو ۔۔۔
مہروش : اب ایسی بھی بات نہیں ۔
وہ پشیمان سی ہو کر بولی تھی ۔
نہال : بہت پیاری لگ رہی ہو مگر میری مہروش واضح دکھائی نہیں دے رہی ۔(وہ اپنی مسکراہٹ دبا کر بولا تھا)
مہروش : مطلب؟ (اس نے ناسمجھی سے اپنی بڑی بڑی میک اپ سے بھاری ہوتی خوبصورت پلکیں اٹھائیں)
نہال : مطلب یہ کہ وہ سادہ سا حسین چہرہ اس میک اپ کے پیچھے کہیں چھپ گیا ہے ۔۔سچ کہوں تو سادگی میں ذیادہ پیاری لگتی ہو مگر یہ روپ بھی کمال ہے ۔
مہروش کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے وہ اسکی مخروطی انگلی میں انگوٹھی پہنا رہا تھا ۔ مہروش اسکے لمس کے احساس کو اپنی روح کی گہرائی تک محسوس کر رہی تھی اسکے دل کی دھڑکنیں تیز ی سے چل رہی تھیں.وہ آج بے انتہا خوش تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ اس نے جسے چاہا اسے پالیا۔
*******
پہلے دن شیما کے۔گھروالے ناشتہ لائے تو سب نے ساتھ ناشتہ کیا ۔اگلے دن نہال جاگا تو ماں کو کچن میں دیکھ کر جا کر پیچھے سے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال لیں۔۔
صبح بخیر اماں! 
صبح بخیر ۔۔۔۔اٹھ گیا میرا بیٹا؟
بہو اٹھ گئی ہے تو ناشتہ کمرے میں بھجوادیتی ہوں میں تم دونوں کے لئے ۔۔
ماں نے ساتھ ساتھ کام کرتے ہوئے کہا تو نہال نے پیچھے ہٹ کر کہا. 
ہم ساتھ ناشتہ کریں گے ماں۔۔
کہتے ہوئے وہ ڈائنگ ٹیبل پر جاپہنچا۔۔
بیٹا اچھا نہیں لگتا شادی کو آج دوسرا ہی دن ہے بہو کے ساتھ ناشتہ کرو میں کمرے میں بھیجتی ہوِں رشیدہ کے ہاتھ (نسیم بیگم نے نہال کو چیئر سے اٹھنا کا کہتے ہوئے ملازمہ رشیدہ کو پکارا اور ناشتہ جلدی تیار کرنے کا کہا)
ماں مجھے آپ اور بابا کے ساتھ ناشتہ کرنے کی عادت ہے میں اسے کہتا ہوں تیار ہوکر یہیں آجائے۔
(نہال نے ماں کو کندھوں سے پکڑ کر پیار سے کہا )
ضد نہیں کرو نہال۔۔۔تم چپ کر کے اندرجاؤ۔۔۔.میں بہو کو کسی بھی طرح شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی۔ جا اب ۔۔۔(ماں کی سنجیدگی کو پرکھتا ہوا وہ خاموش کمرے میں چلا آیا تھا)
مہروش گنگناتی ہوئی آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی وہ ابھی ابھی تیار ہوئی تھی مہرون کلر کے کام دار جوڑے میں اسکا سفید رنگ مزید گورا لگ رہا تھا ۔
کیسی لگ رہی ہوں میں نہال؟ 
نہال کو دیکھ کر اس نے فورا پوچھا مگر نہال بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھا کسی اور سوچ میں گم تھا ۔
نہال ۔۔۔۔۔۔۔
(اس نے پاس جاکر اپنی چوڑیاں نہال کے چہرے کے سامنے کر کے کھنکھناتے ہوئے اسے پکارا تھا)
ہاں؟ (وہ یکدم چونکا)
مہروش :کہاں گم ہیں ؟
نہال : کہیں نہیں
مہروش : کوئی پریشانی ہے کیا ۔۔۔آپ مجھ سے شئیر کریں گے تو مجھے اچھا لگے گا۔۔۔ ورنہ میں سمجھوں گی میں بے وقوف سی لڑکی اس قابل بھی نہیں کہ آپ اپنی بات مجھ سے شئیر کرسکیں ۔(اس نے نہال کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے کہا تھا )شادی کے بعد وہ اسے آپ ہی کہہ کر مخاطب کرنے لگی تھی کیونکہ یہ بات ایک دن ثانیہ نے اس کے کان میں ڈالی تھی کہ” شوہروں کو آپ کہہ کر ہی مخاطب کرنا چاہئے خاص کر دوسروں کے سامنے یہ لفظ “آپ “ادب احترام کے ساتھ آپکی زبان کی تمیز کا بھی ترجمان بن جاتا ہے اور بیویاں شوہروں کو آپ کہتی ہی ذیادہ اچھی لگتی ہیں “
۔۔۔۔۔۔۔
نہال کچھ سوچنے کے بعد بولتا ہے ۔۔
نہال : نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اماں نے ڈانٹ کر اندر بھیج دیا کہتی ہیں۔۔۔ بہو کے ساتھ ناشتہ کرو۔۔ ۔میں اسے شکایت کا موقع نہیں دے سکتی۔
(اس نے ہمیشہ کی طرح سچ اور حقیقت پر مبنی بات کہی)
مہروش : اور آپ۔۔۔۔۔آپ کیا چاہتے ہیں ؟
نہال : میری چھوڑو ! آپ بتا ئیں۔۔۔کیونکہ اب خود سے ذیادہ آپ کی خوشی کو دیکھنا ہے ۔
مہروش :ہمممممم. ۔۔۔۔چلیں پھر !
مہروش اپنا ڈھلکا ہوا ریشمی آنچل کندھے پر دوبارہ ڈالتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔
نہال : کہاں؟
مہروش : انکل آنٹی کے ساتھ ناشتہ کرنے ۔۔۔۔جلدی آجائیں ورنہ میں ان سے کہوں گی آپ کا بیٹا کہہ رہا ہے کمرے میں ہی ناشتہ کروں گا ۔۔۔
(وہ اسے دھمکی آمیز انداز میں بولتی ہوئی کمرے سے نکل جاتی ہے)
رکو ذرا تم مہروش کی بچی (وہ بھی اسکے پیچھے اسے پکارتے ہوئے بھاگا تھا)
*********
نہال اور مہروش کی شادی کو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ اچانک اسے خبر ملتی ہے کہ اسکے والد امتیاز ملک اور بھائی شہریار ملک ایک کار ایکسیڈنٹ میں زندگی ہار گئے۔
والد اور بھائی کی موت کا صدمہ مہروش اور اسکی ماں کو توڑ کر رکھ دیتا ہے ۔۔ شروع کے کچھ دن تو وہ اپنی ماں کے گھر انکے پاس ہی رہتی ہے مگر پھر واپس اپنے گھر آجاتی ہے۔۔۔۔
نہال اور اسکے گھر والے اسے واپس زندگی کی طرف لانے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں اور کافی عرصے بعد آج بہت اصرار پر وہ تیار ہوکر نہال کے ساتھ باہر آئی تھی ۔
وہ دونوں ریستوران میں کھانا کھانے آئے ہوئے تھے دونوں نے کالے رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا انھیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ دونوں ایکدوسرے کیلئے ہی بنے ہیں ۔
مہروش : نہال۔۔۔۔ایک بات کرنی تھی آپ سے ۔۔(مہروش نے پانی کا گلاس منہ سے ہٹاتے ہوئے کہا)
نہال : ہاں کہو ۔۔۔
مہروش : آپ تو جانتے ہیں بابا کا بزنس بابا خود ہی دیکھا کرتے تھے بھائی کو تو ویسے بھی دلچسپی نہیں تھی ۔۔ اب چونکہ وہ دونوں ہی نہیں رہے تو ماما اور میں دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ بابا کا بزنس آپ دیکھیں ۔۔
(وہ بہت احتیاط برتتے ہوئے نہال کے سامنے اپنی اور اپنی ماں کی خواہش کا اظہار کرتی ہے)
نہال : آنٹی بھی یہی چاہتی ہیں؟ (نہال نے کھانا کھاتے ہوئے ہاتھ روک کر پوچھا)
مہروش : ہاں ماما بھی یہی چاہتی ہیں یہ سچ ہے کہ شروع میں وہ آپکو خاص پسند نہیں کرتی تھیں مگر اب وہ زندگی کی حقیقتیں سمجھنے لگی ہیِں ۔۔۔نہال ماما بہت اکیلی پڑ گئی ہیں انہوں نے ہر جگہ آنا جانا چھوڑ دیا ہے وہ بہت بدل گئی ہیں انھیں ہماری ضرورت ہے۔۔
آپ میرا ساتھ دینگے نا نہال؟ 
کاجل سے بھری آنکھوں میں آنسوں کی چمک واضح دکھائی دے رہی تھی نہال اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر آنکھوں کے اشارے سے وعدہ کرتا ہے۔ اسکی آنکھوں کی چمک اور لبوں کی مسکان مہروش نے مہروش کو مطمئن کردیا تھا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔
********
شادی کی پہلی سالگرہ بہت مبارک ہو میڈم۔ ۔۔
گھر کی چھوٹی سی تقریب میں ثانیہ بھی مدعو تھی۔
ثانیہ : تم خوش ہو نا؟ 
مہروش : ہاں بہت! 
پتا ہے ثانیہ مجھے جو محبت اپنائیت نہال کے گھر آکر ملی ۔۔۔وہ پہلے کہیں نہیں ملی۔۔۔ انکل آنٹی میرا بہت خیال کرتے ہیں ۔۔۔اور انکی محبت دیکھ کر میرا بھی ضمیر کہتا ہے میں انکو بدلے میں محبت دوں ۔۔۔اور دوں گی۔ 
ثانیہ : تم بہت لکی ہو ۔ثانیہ تمھیں اتنا اچھا سسرال ملا ہمیشہ انکی قدر کرنا۔ محبت کے بدلے محبت دینا 
مہروش : صحیح کہتی ہو تم کچھ رشتے بہت انمول ہوتے ہیں ہم انھیں نبھا لیں تو زندگی جنت بن جاتی ہے نہیں تو جہنم ۔۔۔۔
بابا اور بھائی کے بعد نہال نے ماما کا بیٹا بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تو کیامیں انکے والدین کی بیٹی بن کے نہیں رہ سکتی ؟
میں ہمیشہ انکی بیٹی بن کررہوں گی۔۔
ثانیہ : ان شا اللہ۔۔۔۔
مہروش بھی دھیرے سے ان شا اللہ کہتے ہوئے مسکرا دیتی ہے ۔۔۔ اور دل ہی د ل میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہے ۔۔ 
ختم شد!

Short URL: http://tinyurl.com/y8cydmu5
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *